علی گڑھ کے مٹری والے

علی گڑھ کی مٹری، جو کہ علی گڑھ کے بسکٹ کے نام سے بھی مشہور ہے، دیکھنے میں غیر معمولی نہیں لگتی۔ پہلی نظر میں چھوٹی پلیٹ کے برابر کے  بسکٹ کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

لیکن علیگڑھ کی مٹری ایسی ہے کہ پہلے نوالے میں ہی اپنی قدر تسلیم کرنے پر مجبور کرتی  ہے۔  اس کے سامنے فرانس کی لطیف و نفیس کراساں (ہلالی شکل کا بن)  بھی ہیچ نظر آتے ہیں۔ اس کا ہلکا میٹھا ذائقہ ا لائچی وغیرہ کے امتزاج سے دوبالا ہو جاتا ہے۔ عموما ناشتے کی چائے کے ساتھ یہ لی جاتی ہے اور اس پر  مکھن لگایا جاتا ہے۔

علیگڑھ کی مٹری۔


مٹری ایجاد کرنے والے کا تو کوئی سراغ نہیں ملتا ہے لیکن جس کاریگر کا نام سب کی زبان پر ہے وہ ہے لطیف خان کا، جن کی پیدائش تقریبا 1890ء میں گورکھپور شہر  کے پٹھانوں کی بستی میں ہوئی تھی۔

 یہ روایت محمد شفو کی ہے جو ان کے 65 برس کی پوتے ہیں اور ساتھ ہی ان کے شاگرد بھی۔ بقول پرویز عالم (عمر 62) جو کاریگر ہیں اور لطیف خان کے شاگرد رہ چکے ہیں، ، مٹری بنانا لطیف خان کے "باپ دادا کا کام تھا" حالانکہ لطیف خاں کے دوسرے پوتے عبد التوحید کے مطابق انہوں نے یہ فن اپنے والد سے سیکھا تھا۔ 

لطیف خان کے پوتے محمد شفو اپنے گھر واقع شاہ جمال علی گڑھ۔

شفو کے مطابق لطیف خان گورکھپور کے فوجی عملے میں کام کرتے تھے اور وہاں ڈبل روٹی تیار کرتے تھے۔ یہ عملہ انگریز فوج کا رہا ہوگا کیونکہ باقی ہندوستان کی طرح گورکھ پور بھی 1857 کے غدر کے بعد براہ راست برطانوی سلطنت میں ضم ہوگیا۔
 
شادی کے بعد لطیف خان علی گڑھ منتقل ہوئے۔ پرویز عالم کا گمان ہے کی شاید ان کے یا انکی بیگم کے رشتہ دار یہاں مقیم تھے۔ یہ واقعہ 1913 سے قبل کا ہوگا کیونکہ اس برس انہوں نے رحمت بیگ نامی شاگرد قبول کیا تھا۔

 یہ روایت راحت بیگ کی ہے جو رحمت بیگ کے بیٹے ہیں اور "خرم پاپے اور بھارت بیکری" واقع رسل گنج کے مالک  بھی۔ وہ سراۓ حکیم میں مقیم ہیں جو رسل گنج سے متصل محلہ ہے۔ یہیں تندور لگا کر اپنے گھر میں ہی نان بائی کا کاروبار شروع کیا۔

محمد شفو کو بخوبی یاد ہے کہ ان کے دادا کی مٹری کی دکان شاگردوں سے بھری رہتی تھی جس میں لطیف خان کے تمام بھائی، بیٹے، اور پوتے سب شامل تھے۔ دس برس کی عمر میں ان کی باری آئی۔ وہ لمحہ ابھی تک ان کے ذہن پر نقش ہے۔ وہ پانی کی بالٹی اوپر لے جارہے تھے جب چچا نے آ کر اطلاع دی کہ دادا کارخانے میں طلب کر رہے ہیں۔

کاریگری  کے جوہر سے مستفید ہونے والوں کی فہرست میں ساجد خان کے والد بندو خان بھی شامل ہیں۔ ساجد درزی ہیں، اور وہ بتاتے ہیں کہ ان کے والد نے بابوخان نامی کاریگر کی شاگردگی اختیار کی تھی اور سردار بسکٹ فیکٹری (قائم اندازا 1920) میں ان کی تربیت ہوئی تھی۔

بابو خان نے یہ ہنر لطیف خان کے چھوٹے بھائی مجید خان سے سیکھا تھا۔ ساجد خان کو اپنے بچپن کا وہ منظر یاد ہے کہ ان کے والد سائیکل پر مٹری لاد کے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ لے جاتے تھے جہاں یہ طلباء کی خاص غذا تھی۔

آزادی سے پہلے مٹری کے مدمقابل میں ڈبل روٹی رہا کرتی تھی۔ بقول طاہر وارثی، (عمر 90 برس) جو 1940 کی دہائی میں سردار بسکٹ فیکٹری میں کاریگر تھے، مٹری اور ڈبل روٹی کے مابین مقابلہ کی وجہ یہ تھی کہ انگریز افسر ٹھیک بارہ بجے دن قورمہ اور ڈبل روٹی اڑایا کرتے تھے۔ آزادی کے بعد مٹری نے ڈبل روٹی کو پیچھے چھوڑ دیا اور محلے سے نکل کر پورے شہر میں مقبول ہوگئی۔

شفو بیان کرتے ہیں کہ لطیف خان کی مٹری اتنی مشہور ہوئی کہ لوگ بڑے بڑے ٹوکروں میں بھر کر لے جایا کرتے تھے اور عرصےتک کھایا کرتے تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بسکٹ کی طرح مٹری بھی لمبے عرصے تک ٹھیک رہتی ہے بشرطیکہ نمی اور گرمی سے محفوظ رہے۔

1970 کی دہائی میں لطیف خان کے انتقال کے بعد بھی مٹری کی دکانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا یہاں تک کہ 1980 کی دہائی میں صرف سرائے حکیم محلے میں ہی پچاس ساٹھ دکانیں تھیں۔ یہ روایت محمد بشیر (عمر 55) کی ہے۔ یہ آزادی بیکری کے مالک ہیں اور ان کے بھائی محمد سلیمان لطیف خان کے شاگرد رہ چکے تھے۔
 

محمد بشیر خمیر کے آٹے سے پیڑے بناتے ہوئے۔ یہ ان چند دکانوں میں سے ہے جہاں مٹری خود تیار کی جاتی ہے۔ باقی دکانیں  دیگر جگہ سے حاصل کی ہوئی مٹریوں کو فروخت کرتی ہیں لیکن ان کا رواج بھی ختم ہوتا جارہا ہے۔

گزشتہ زمانے میں مٹری کی مقبولیت کی وجہ اس کا مخصوص ذائقہ تھا۔ کاریگر حضرات اس میں الائچی جائفل اور پوستہ وغیرہ ڈالا کرتے تھے، لیکن اب مہنگائی کی وجہ سے  یہ مٹری عام آدمی کی قوت خرید سے باہر یے۔

ان کے علاوہ ایک اور خاص جز وہ مصالحہ ہوتا تھا جو پچیس تیس اجزاء پر مشتمل تھا۔ اس کو دہی میں ملایا کرتے تھے اور اسی سے آٹا خمیر کیا جاتا تھا۔ حالانکہ اب تقریبا پندرہ برس سے دہی کی جگہ صنعتی خمیر استعمال کی جاتی ہے لیکن یہ خاص مصالحہ ابھی تک استعمال میں ہے۔ سب ہی کاریگر اس پر متفق ہیں اس کے موجد لقمان حکیم ہیں۔

لقمان ایک مشہور نیم تاریخی کردار ہیں جو اپنی دانائی اور حکمت کی وجہ سے اسلامی معاشرے میں زندہ جاوید ہیں۔  یوٹیوب پر ان سے منسوب کئ ویڈیو بھی ہیں جو نباتاتی دواؤں پر مرکوز ہیں۔ توحید البتہ اس روایت سے انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں یہ مسالہ لطیف خان کے خاندان کی ایجاد ہے اور وہ خود اپنے ہاتھ سے تیار کیا کرتے تھے۔

اس کے موجد کوئ بھی ہو لیکن ہر کاریگر کا اصرار تھا کہ ان کے پاس اس کی ترکیب کا دستی نسخہ تھا جو ان کے استاد نے ان کو عطیہ کیا تھا، حالانکہ کسی نے دکھایا نہیں۔ اکثر کاریگر اپنا استاد لطیف خان کو بتاتے ہیں۔

مٹری سازی طویل اور پرمشقت کام ہے۔ جب دہی بطور خمیر استعمال ہوتا  تھا  تب تین دن میں جا کر مٹری تیار ہوتی تھی، لیکن اب صنعتی خمیر کے باوجود تقریبا سولہ گھنٹے لگتے ہیں۔ یہ عالم کی روایت ہے جو اوپر کوٹ کی تاج بیکری میں کاریگر ہیں جو کہ سرائے حکیم سے دس منٹ کی مسافت پر ہے۔
پرویز عالم کچی مٹری ٹین کی طشت پر رکھتے ہیں۔ یہ طشت اندھیرے کمرے میں کم از کم چار گھنٹے رکھی جاتی ہیں تاکہ خمیر پھول سکے۔
ایک گھنٹے سے زیادہ دیر تک آٹا گوندھا جاتا ہے، ایک گھنٹہ اسے اچھالا جاتا ہے، تین گھنٹے میں اس کے پیڑے اور لوئ بنتے ہیں اور پھر چار گھنٹے ان کو بیلنے میں صرف ہوتے ہیں۔

پھر بھی کاریگر کی دن بھر کی اجرت چار سو روپے سے بھی کم ہوتی ہے جو کہ ایک عام مزدور کو آٹھ گھنٹے کی محنت کے لئے ملتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر کاریگر مٹری سازی کا ہنر اپنی اولاد کو نہیں سکھاتے۔

محمد نظام الدین (عمر 28) تاج بیکری کے حصہ دار ہیں۔ انہوں نے اپنے والد کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے مٹری سازی کو ذریعہ معاش بنایا۔ والد کے انتقال کے بعد وہ خاندانی روایت کو زندہ رکھنے کے لیے یہ کام کر رہے ہیں۔ جب مینے پوچھا کہ وہ اپنی اولاد کو بھی یہ ہنر سکھائیں گے تو انہوں نے کہا "نہیں، نہیں، بالکل نہیں"۔

کاریگری کی پانچ دہائیاں گزر گئیں اور عالم کے بچوں نے دیر رات ہی ان کو تھکے ماندے گھر آتے دیکھا۔ اس وجہ سے ان میں سے کسی کو بھی مٹری سازی کا شوق نہیں ہے۔ 

 کاریگر بھی عمررسیدہ ہو رہے ہیں۔  نظام الدین (28) اور ان کے بھائی فخر الدین(25)  ہی دو ایسے کاریگر ہیں جو نوجوان ہیں۔ ان کے مطابق کاریگر کی اوسط عمر ساٹھ برس ہے۔ "15 سال مان لو" انہوں نے کہا،  اس کے بعد یہ ہنر کاریگروں کے ساتھ ختم ہو جائے گا۔

گول مٹری  بیلتے ہوئے عالم کو اپنے استاد کی نصیحت یاد آتی ہے "خمیر بتائے گا میں کیسا چل رہا ہوں"۔ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ کریگر جو خمیر پڑنے کی خفیف سی  "چو چو" کی آواز کو پہچان لیتا ہے وہ ہمیشہ سمجھ سکتا ہے کہ خمیر جلدی تیار ہورہا ہے یا بہت سست رفتاری سے۔ عالم کی زندگی کا یہ ایک عام دن ہے: مٹری بیلنا اور تیار کرنا۔
آزاد بیکری کا تندور۔ خمیر کے اٹھنے میں کم وقت لگتا ہے جب آگ بھڑکی  ہوئی ہوتی ہے لیکن جب سرد ہونے لگتی ہے تب مٹری تیار ہونے  میں 20 منٹ لگتے ہیں۔
لطیف خان کا تقریبا 80 برس سے زائد عمر میں 1970 کے آخری عشرے میں انتقال ہوا تھا۔ ہندوپاک کی 1965 کی جنگ میں ان کا سراۓ حکیم کا مکان کسٹوڈین یعنی حکومت نے ضبط کرلیا تھا۔ تقسیم ہند پاک میں ان کے دو بھائی پاکستان ہجرت کر گئے تھے۔

حالانکہ وہ خود یہاں رہے لیکن حکومت نے ان کے گھر کی ملکیت کسٹوڈین کو دے دی۔  وہ اپنی بیٹی کے گھر منتقل ہوگئے اور داماد کی بیکری واقع اوپر کوٹ میں کام کرنے لگے۔  وہاں بھی استادی کا سلسلہ جاری رکھا اور عالم نے وہیں یہ ہنر سیکھا۔

آزاد بیکری کے کاریگر تازہ مٹری کا بنڈل  تیار کرتے ہوئے۔ نیلا بنڈل عام مٹری کا ہوتا ہے جو 36  روپے میں فروخت ہوتا ہے۔ "اسپیشل مٹری"  میں کھویا ہوتا ہےاور س کا بنڈل ساٹھ روپے میں فروخت ہوتا ہے۔
 
This Urdu translation was done by Abdul Sabur Kidwai, who is a Masters student of English at the Aligarh Muslim University. He writes about culture and history. 

Article originally published in English on TwoCircles.net on May 22, 2019 and on this blog on October 3, 2018.

Comments

Popular Posts